Professor Jackie Yi-Ru Ying Story

!!….دنیا کی نامور سائنسدان اور حجاب

www.informationforall.website
  Source By : Google Jackie Yi-Ru Ying

تحریر: ضیاء چترالی پروفیسر جیکی یِنگ (Jackie Yi-Ru Ying) دورِ حاضر کی ایک مایہ ناز اور بے شمار ایوارڈ لینے والی سائنسدان،
محقق اور ماہرِ نینو ٹیکنالوجی ہیں۔ وہ دنیا کی دوسری بہترین یونیورسٹی میساچوسٹس
انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی
(MIT) میں کیمیائی انجینئرنگ کے شعبے میں فل پروفیسر ہیں۔ صرف 25 سال میں
ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پھر 35 سال کی عمر میں وہ فل پروفیسر بننے والی کم عمر
ترین سائنسدان بن گئیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اسلام بھی قبول کر لیا اور اب ان
کا شمار دنیا کی 500 بااثر ترین مسلم شخصیات میں ہوتا ہے۔ وہ امریکی مؤقر و عظیم
دانش گاہ جامعہ ییل
(Yale University) سے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں۔ اصل تعلق سنگاپور سے۔ 1966ء میں
تائیوان میں پیدا ہوئیں۔ 1973 میں اپنے خاندان کے ساتھ سنگاپور منتقل ہوئیں، جہاں
انہوں نے رُلانگ پرائمری اسکول اور رافلز گرلز اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں،
وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا چلی گئیں اور 1987ء میں کوپر یونین سے بیچلر آف
انجینئرنگ کی ڈگری “سمّہ کم لاؤڈے” کے ساتھ حاصل کی، پھر انہوں نے
پرنسٹن یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور 1988ء میں کیمیکل انجینئرنگ میں ماسٹرز کیا
اور پھر 1991ء میں جامعہ ییل سے اسی شعبے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے
ایک سال ہمبولٹ فیلو کے طور پر انسٹی ٹیوٹ فار نیو میٹریلز، ساربروکن میں گزارا
اور نینو کرسٹلائن میٹریلز پر ہربرٹ گلیٹر کے ساتھ تحقیق کی۔ وہ سنگاپور کی
Agency for Science, Technology and
Research
المعروف میں نینو ٹیکنالوجی کی
بنیاد رکھنے والی پہلی ایگزیکٹو ڈائریکٹر رہ چکی ہیں۔ نینو ٹیکنالوجی
(Nanotechnology) سائنس کا ایک جدید شعبہ ہے، جس میں مادوں کو نہایت چھوٹی جسامت میں
استعمال کیا جاتا ہے۔ اتنی کم جسامت کہ ایک میٹر کا ایک ارب حصّہ جسے نینو میٹر
کہتے ہیں۔ اس کا اندازہ آپ اس طرح لگا سکتے ہیں کہ ایک انسانی با ل 80,000 نینو
میٹر کے برابر ہے۔ جب مادوں کو اس حد تک چھوٹا کیا جاتا ہے تو ان کی خصوصیات میں
ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جو کہ نینو ٹیکنالوجی کے شعبے میں مختلف نئی
صنعتی مصنوعات کی تخلیق کا سبب بنتی ہیں۔ پروفیسر یِنگ کو نینو ٹیکنالوجی کے میدان
میں عالمی سطح پر پہچانا جاتا ہے۔ ان کی تحقیق نے نینو میٹریلز، بایومیڈیکل
انجینئرنگ اور ٹارگٹڈ ڈرگ ڈیلیوری سسٹمز میں نئے امکانات کو اجاگر کیا۔ پروفیسر
یِنگ نے نینو میٹریلز کی نئی قسمیں تخلیق کی ہیں، جو میڈیکل اور فارماسیوٹیکل
ایپلی کیشنز میں استعمال کی جا سکتی ہیں، خاص طور پر ڈرگ ڈیلیوری سسٹمز کے لیے۔
انہوں نے نینو ٹیکنالوجی کو صحت کے شعبے میں جدید حل پیش کرنے کے لیے استعمال کیا
ہے، جیسے کہ کینسر کی تشخیص اور علاج کے لیے۔ پروفیسر جیکی یِنگ کو ان کی سائنسی
تحقیق اور ایجادات کے لیے کئی ایوارڈز اور اعزازات مل چکے ہیں۔ وہ مختلف سائنسی
اداروں کی ممبر اور سائنسی جرنلز کی ایڈیٹر بھی رہی ہیں۔ 2005 ء میں ینگ کو جرمن
نیشنل اکیڈمی آف سائنسز لیوپولڈینا کی سب سے کم عمر رکن منتخب کیا گیا۔ سنگاپور
کی خواتین سائنسدانوں میں وہ پہلے نمبر پر ہیں۔ 2014ء میں ان کا نام سنگاپور ویمنز
ہال آف فیم میں شامل کیا گیا۔ یہ ہال سنگاپور میں تاریخ رقم کرنے والی اہم خواتین
کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی دستاویز بندی کرتا ہے۔ 2015ء میں انہیں ترکیا
کا سب سے بڑا سائنسی ایوارڈ مصطفیٰ پرائز سے نوازا گیا۔ مارچ 2018 میں، ینگ نے
انسٹی ٹیوٹ آف بایو انجینئرنگ اینڈ نانو ٹیکنالوجی میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے طور
پر اپنی پوزیشن چھوڑ دی اور اپنے ذاتی لیب نینو بایو لیب کو سنبھالنےکا فیصلہ کیا۔
اس کے بعد کنگ فہد یونیورسٹی آف پیٹرولیم اینڈ منرلز
(KFUPM) کے بایو
انجینئرنگ کے شعبہ میں پروفیسر کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ 2019ء میں وہ کورونا
کٹ تیار کرنے والی ایشیا کی پہلی سائنسدان بن گئیں۔2021 ء میں، ینگ کو یونائیٹڈ
اسٹیٹس نیشنل اکیڈمی آف انجینئرنگ کا رکن منتخب کیا گیا۔ 2023ء میں انہیں شاہ
فیصل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ جیکی ینگ اعزازات کی ایک شاندار فہرست رکھتی ہیں۔
امریکی انسٹی ٹیوٹ آف کیمیکل انجینئرز نے انہیں جدید دور کے 100 بہترین انجینئرز
میں شامل کیا ہے۔ ٹیکنالوجی ریویو کے مطابق وہ دنیا کے ان 100 نوجوانوں میں ہیں،
جن سے 21ویں صدی کو لیڈ کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔ اپنے قبول اسلام کے بارے میں ان
کا کہنا ہے کہ میرے ایک اچھے دوست ہیں، جو مسلمان ہیں اور میں ان کے ذریعے اسلام
سے متعارف ہوئی جب میں سیکنڈری اسکول میں تھی۔ لیکن تھوڑی تاخیر سے یعنی تیس سال
کی عمر میں مجھے مذہب میں زیادہ دلچسپی پیدا ہوئی اور 35 سال کی عمر میں، میں نے
اسلام قبول کیا۔ اس دوران کچھ ایسی تحقیقات سے گزرنا پڑا کہ خدا کے وجود کو مانے
بغیر کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ مثلاً جب آپ بایومیڈیکل تحقیق کرتے ہیں، تو آپ کو
حیاتیاتی نظاموں کی پیچیدگیوں اور ان کے کام کرنے کے طریقے پر حیرت ہوتی ہے۔ یہ
اتنا پیچیدہ ہے کہ ہر چیز کا اتفاقاً بغیر کسی خالق کے ٹھیک اپنی جگہ پر فٹ ہونا
بہت ہی کم امکان رکھتا ہے تو میرے لیے یہ بہت سادہ معاملہ تھا، اس کا مطلب یہ ہے
کہ ایک خالق ضرور موجود ہے، جس نے بڑی باریکی سے یہ سارا سسٹم انسٹال کیا ہے۔
اسلام ایک سادہ مذہب ہے، اس لیے مجھے یہ بہت پسند آیا۔ میری طرف سے حجاب (سرپوش)
پہننا بھی ایک ذاتی فیصلہ تھا، جو میں نے چند سال قبل عمرہ ادا کرنے کے بعد
باقاعدگی کے ساتھ شروع کیا۔ اب حجاب میرے لیے ایک مذہبی فریضہ ہے، دوسرے لوگ کیا
سوچتے ہیں یا کیا کہتے ہیں، اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مجھے یاد ہے جب میرے
کچھ کولیگ نے پہلی بار مجھے حجاب میں دیکھا تو انہوں نے سمجھا کہ میں کسی پارٹی پر
جا رہی ہوں! میرے باس نے مذاق کیا کہ انہیں میری شناخت کے لیے میری انگلیوں کے
نشان (فنگر پرنٹس) چاہیے تاکہ یہ یقین دہانی ہو سکے کہ یہ میں ہی ہوں۔ بہرحال میری
پوزیشن ایسی تھی کہ کوئی منفی ردعمل دے
بھی
نہیں سکتا تھا۔ پروفیسر صاحبہ اب بہت باعمل مسلمان ہیں۔ ان کی سائنسی کامیابیاں
اور ایمان کے درمیان تعلق کئی بار زیر بحث آیا ہے۔ پروفیسر جیکی یِنگ کی زندگی
ایک اہم مثال ہے کہ انسان اپنے عقیدے اور مذہب پر کاربند رہ کر سائنسی میدان میں
کامیابیوں کے جھنڈے گاڑھ سکتا ہے۔ حجاب اس کے راستے میں ہر گز رکاوٹ نہیں ہے۔ اپنے
پروفیشن اور مذہب کے درمیان توازن قائم کرنا کوئی مشکل کام نہیں، بشرطیکہ کوئی عزم
کرلے۔ پھر اسلام چونکہ دین فطرت اور علم دوست مذہب ہے، اس لیے یہ علمی ترقی کی راہ
رکاوٹ نہیں، بلکہ مزید ہمت وحوصلے عطا کرتا ہے۔ ایک یہ نامور عالمی ایوارڈ یافتہ
سائنسدان ہیں اور دوسری طرف ہماری پیدائشی مسلمان لڑکیاں، جن کے سر سے جعلی تھرڈ
کلاس تعلیمی اداروں میں قدم رکھتے ہی وقار و شرافت اور پاکدامنی و عفت کی علامت
حجاب غائب ہو جاتا ہے۔ پروفیسر جیکی یِنگ کی قابل تقلید زندگی میں ان کے لیے ایک
بڑا سبق ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *